"عبدالستار ایدھی کا سفر زندگی"
"عبدالستار ایدھی کا سفر زندگی"
عبدالستار ایدھی یکم جنوری 1928 کو بھارت کی ریاست گجرات کے شہر بانٹوا میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد کپڑے کے تاجر تھے اور درمیانے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ کہتے ہیں کہ ان کی والدہ انھیں اسکول جاتے وقت دو پیسے دیتی تھیں۔اور کہا کرتی تھیں کہ " بیٹا ایک پیسہ خود رکھ لینا اور ایک کسی ضرورت مند کو دے دینا" اور یوں بچپن ہی سے انہوں نے ضرورت مندوں کی مدد کرنا سیکھ لیا تھا اس نے آگے انکی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔انیس سو سینتالیس میں برصغیر کی تقسیم کے بعد ان کا خاندان بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آیا اور کراچی میں رہائش پذیر اور یہاں ایک ڈاکٹر کی مدد سے انہوں نے چھوٹی سی ڈسپنسری کھولی اور لوگوں کی ضرورت کے خیال سے ڈسپنسری کے بینچ پر ہی سو جاتے تھے۔ جب کراچی میں فلو کی وبا پھیلی تو آپ نے کیمپ لگا کر مریضوں کو مفت ادویات فراہم کیں۔ مخیر حضرات نے بھی ان کے کاموں کو دیکھتے ہوئے دل کھول کر امداد کی۔ یوں اس امدادی رقم سے انہوں نےوہ پوری عمارت خرید لی جہاں ڈسپنسری تھی اور وہاں ایک زچگی سینٹر اور نرسوں کی تربیت کے لیےسکول کھول لیا۔ اور یہیں سے ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز ہوا۔
آنے والے وقتوں میں ایدھی فاؤنڈیشن نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں میں خدمات سر انجام دینے لگی۔ آج ہسپتال اور ایمبولینس کی خدمات کے علاوہ ایدھی فاؤنڈیشن نے کلینکس ، زچگی گھر، پاگل خانے ،معذوروں کے لیے گھر، بلڈ بینک، یتیم ہانے، لاوارث بچوں کو گود میں لینے کے مراکز، پناہ گاہیں اور سکول کھولے ہیں۔
پاکستان کے علاوہ فاؤنڈیشن جن ممالک میں کام کر رہی ہیں ان میں افغانستان، عراق، چیچینیا، بوسنیا، سوڈان، ایتھوپیا اور قدرتی آفات سے متاثرہ ممالکہ
ہیں۔
آج انہیں نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک محترم شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اتنی شہرت اور ناموری کے باوجود بھی آپ نے اپنا سادہ اندازہ زندگی کی ترک نہیں کیا تھا۔ آپ نے اپنی پوری زندگی ایک جوتے اور دو کپڑوں کے جوڑوں میں گزاری۔
انیس سو ستانوے گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینس سروس دنیا کی سب سے بڑی فلاحی ایمبولینس سروس ہے۔
آپ کو قومی اور بین الااقوامی سطح پر بے شمار اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ جن میں لینن امن انعام، نشان امتیاز،اعزاز خدمت، انسانی حقوق اعزاز کو لائف ٹائم اچیومنٹ اعزاز وغیرہ شامل ہیں۔
8 جولائی 2016 کو عبدالستارعیدی کو شام پانچ بجے وینٹی لیٹر پر رکھا گیا اور رات 11:00 گردوں کے کام چھوڑ جانے کے باعث اٹھاسی سال کی عمر میں اپنے حالق حقیقی سے جا ملے۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
وہ اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
عبدالستار ایدھی جیسے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ان کی خدمات کے صلے میں انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ان کا نام اور کام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ آنے والی نسلیں عبدالستار ایدھی کے کارناموں پر پر فخر کریں گی۔


تبصرے