حضرت ذوالکفل علیہ السلام کا قصہ
حضرت ذوالکفل علیہ السلام
حضرت یسع علیہ السلام بوڑھے ہو گئے تو آپ نے یوں
فرمایا:"کتنا اچھا ہو کہ اپنا ایک نائب مقرر کر دوں جو میری زندگی میں ان پر حکومت کرے تاکہ میں دیکھ سکوں کہ وہ کیسے کام کرتا ہے"۔
آپ نے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا ۔
"جو شخص میری طرف سے عائد کردہ تین ذمہ داریاں قبول کرے گا میں اسے اپنا خلیفہ مقرر کروں گا وہ کام یہ ہیں کہ دن میں روزہ رکھنا،رات کو قیام کرنا اور غصہ نہیں کرنا" مجمع میں سے ایک آدمی جو بالکل عام سی حالت کا تھا ، اٹھا اور بولا"میں ذمہ داری قبول کرتا ہوں،فرمایا: تو دن کو روزہ رکھے گا،رات کو قیام کرے گا، اور غصے میں نہیں آئے گا۔اس نے کہا جی ہاں ! اس دن آپ نے ا سے واپس کردیا ۔دوسرے دن آپ نے پھر یہی اعلان فرمایا: سب خاموش رہے،اسی آ دمی نے اٹھ کر کہا'میں'۔۔۔آپ نے اسے خلیفہ مقرر کر دیا۔دوسری طرف ابلیس شیطانوں سے کہتاتھا"اس شخص کو قابو کرو"وہ شیطانوں کے قابو میں نہ آیا تو ابلیس نے کہا " مجھے اس سے نبٹنےدو"۔
وہ ایک انتہائی بوڑھا فقیر بن کر آپ کے پاس آیا۔جب آپ دوپہر کے وقت آرام کرنے کے لئے لیٹ گئے تو اس نے دستک دی،آپ نے فرمایا کون ؟اس نے کہا ایک مظلوم ضعیف بوڑھا ہوں۔آپ نے نے اٹھ کر دروازہ کھول دیا اور وہ اپنی کہانی سنانے لگا۔اس نے کہا: میرا اپنی قوم کے لوگوں سے جھگڑا چل رہا ہے ۔انہوں نے مجھ پر بہت ظلم کیا ہے،وہ بات کو طول دیتا چلا گیا یہاں تک کہ آپ کے آرام کا وقت ختم ہوگیا گیا اور عدالت میں جانے کا وقت ہو گیا۔آپ نے کہا کہ جب میں بیٹھوں گا تو تجھے تیرا حق دلواؤں گا۔
آپ عدالت میں اپنے مقام پر بیٹھ گئے،آپ نے ادھر ادھر دیکھا مگر بوڑھا نظر نہیں آیا۔اگلے دن بھی لوگوں کے مقدمات سنتے اور فیصلے کرتے رہے اور اس بوڑھے کا انتظار کرتے رہے لیکن وہ کہیں نظر نہیں آیا۔
جب آپ واپس آ کر لیٹے تو وہ دروازہ کھٹکھٹانے لگا۔آپ نے فرمایا: کون ہے؟اس نے کہا وہی مظلوم ضعیف بوڑھا ہو ں۔آپ نے دروازہ کھولا اور کہا: میں نے تجھے نہیں کہا تھا کہ جب عدالت میں بیٹھوں گا تو آنا؟اس نے کہا وہ بڑے حبیث لوگ ہیں،انہیں جب پتا چلا کہ آپ عدالت میں پہنچ گئے ہیں تو مجھے کہنے لگے ہم تجھے تیرا حق دلوا دیں گے۔جب آپ نے عدالت برخواست کر دی تو وہ مکر گئے۔آپ نے فرمایا: اب ذرا چلا جا جب میں عدالت میں جاؤں گا تب آنا۔
اس طرح آپ اس دن بھی قیلولہ نہ کرسکے۔ آپ عدالت میں گئے اور اس کا انتظار کرتے رہے لیکن وہ نظر نہ آیا۔ آپ کے لئے نیند پر قابو پانا مشکل ہو گیا تو آپ گھر والوں سے کہا "مجھے سخت نیند آ رہی ہے،تم کسی کو دروازے کے قریب مت آنے دینا میں ذرا سو لوں" اس وقت وہ پورا آگیا ۔ دروازے کے قریب آدمی نے کہا "پیچھے رہو۔ اس نے کہا میں کل بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اور اسے سب کچھ بتایا مگر اس آدمی نے کا کہا ہر گز نہیں! قسم ہے اللہ کی ہم ہم کسی کو قریب نہ آنے دیں گے۔ جب اس نے دیکھا کہ اس طرح آپ تک پہنچنا مشکل ہے تو وہ روشندان میں سے اندر چلا گیا اور اندر سے دروازہ کھٹکھٹانے لگا۔ آپ کی آنکھ کھلی تو آواز دی اے فلاں! کیا میں نے تجھے حکم نہیں دیا تھا؟
اسنے کہا یہ شخص تو میری طرف سے نہیں آیا ۔ آپ ہی دیکھیں یہ کہاں سے آیا ہے۔ آپ نے دیکھا تو دروازہ اندر سے بند تھا، اس کے باوجود وہ کمرے میں تھا۔ آپ نے پہچان لیا اور فرمایا: کیا تو اللہ کا دشمن ہے؟ اس نے کہا آپ نے میری ہر کوشش ناکام بنا دی تھی اس لیے میں نے آپ کو غصہ دلانے کے لئے سب کیا ۔
اسی وجہ سے اللہ نے آپ کا نام" ذوالکفل" رکھا۔ یعنی ذمہ داری نبھانے والا۔
اللہ تعالی نے قرآن پاک میں فرمایا " اے بنی اسرائیل! اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو بھی یاد کرو۔ یہ صبر کرنے والے تھے اور ہم نے ان کو اپنی رحمت میں داخل کیا، بے شک وہ سب نیکوکار تھے"۔
آپ کے خیال میں صبر کیا ہے؟ اس کے بارے میں ضرور اظہار خیال کریں ۔


تبصرے